ظلمت کو ضیاء کیا لکھنا. تحریر: حیدر علی گوجالی


.............تحریر: حیدر علی گوجالی..........

..........ظلمت کو ضیاء کیا لکھنا...........



چند دن قبل دنیا بھر میں خواتین کا عالمی دن منایا گیا۔ پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے شہروں سمیت گلگت بلتستان میں بھی خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے سرکاری اور غیر سرکاری سطح پرسیمینار، کانفرنس اور دیگر پروگرامز منعقد کئے گئے۔ ان پروگراموں میں پورے پاکستان میں اور خاص طور پر گلگت بلتستان میں بھی یہ تاثر دیا گیا کہ دورِ حاضر میں خواتین کے تمام مسائل حل ہوچکے ہیں۔ ان کو تمام بنیادی حقوق میسر ہیں، معاشرے میں مرد اور عورت برابر انسان تسلیم کیے جانے لگے ہیں اوروہ تمام نام نہاد پابندیاں ختم ہوگئے ہیں جن کی بدولت عورت کو کم تر ، کم عقل او ر کمزور جبکہ مرد کو خودمختار، مضبوط اور عقلمند بنا کر پیش کیا جاتا ہے۔ کیا حقیقت میں ایسا ہی ہے ؟ نہیں، ہر گز نہیں۔ کیونکہ آج بھی ہمارے معاشروں میں عورت کو وہ مقام حاصل نہیں جو ہمارے پیارے نبی کریم ﷺ نے خواتین کے حقوق کے بارے میں فرمایا ہے اور جوہمارے دین کی تعلیمات میں شامل ہیں۔ ہم اس بات پرضرور فخر کرتے ہیں کی بحیثیت مسلمان ہم معاشرے میں خواتین کو ان کے جائز حقوق دینے میں پہلے نمبر پر ہیں اور ہمارے معاشرے میں عورتوں کو بلند مقام حاصل ہے ۔ جن کا ذکر پچھلے دنوں خواتین کے عالمی دن کے مناسبت سے پروگراموں میں بھی کیا گیا۔ لیکن اگر ہم اپنے معاشرے پر نظر دوڑاتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ دیس کے اکثر علاقوں میں خواتین کو وہ بنیادی حقوق میسر نہیں جو ہم بظاہر دکھانے کی کوشش کررہے ہیں۔ ہمارے یہاں بیٹے کی پیدائش پر ہم خوشیاں مناتے ہیں، ہوائی فائرنگ کرتے ہیں او رایک دوسرے کو مبارکبادی دیتے ہیں۔ لیکن اگر ہمارے یہاں بیٹی کی پیدائش ہوتی ہے تو ہم ناراض ہوجاتے ہیں، بیگم کو بیٹی جنم دینے کے طعنے دیتے ہیں او راس معصوم جان کو اپنے اوپر بوجھ تصور کرتے ہیں۔ آگے جاکر ہم ان بیٹیوں کو تعلیم دلانا عیب سمجھتے ہیں ، ان کو گھر کے چار دیواری کے اندر قید کردیتے ہیں اوران کی جلد از جلد شادی کراکے اپنے سر سے بوجھ ہلکا کرنے کا سوچتے ہیں۔ آج بھی ہم اپنی بیٹیوں کو ان کی مرضی کے مطابق تعلیم حاصل کرنے کا حق نہیں دیتے، ان کو ملازمت کے مواقع ہم فراہم نہیں کرتے یا معاشرے میں ایسا ماحول پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتے جہاں ہماری بیٹیاں اور بہنیں محفوظ رہیں اور آزادی کے ساتھ کالج او ردفترجاسکیں۔ غیرت کے نام پر نہ جانے کتنی بے گناہ خواتین ہر سال قتل کیے جاتے ہیں اور انہیں خودکشی کا رنگ دیکر معاملہ حل کردیتے ہیں۔دفتروں اور پبلک مقامات میں خواتین کو تنگ کرنے کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ ملازمتوں میں خواتین کے لئے مختص نشستیں نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان میں خواتین پر تشدد کئی صورتوں میں موجود ہے او راس میں مسلسل اضافی ہورہا ہے۔ ایک غیر سرکاری تنظیم عورت فاونڈیشن کے مطابق 2014 میں روزانہ چھ عورتیں اغواء، چار ریپ او رچھ قتل کی گئیں اور تین خواتین نے خود کشی کی۔ ہومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں 18,700 افراد جن میں اکثریت خواتین کی تھی اغواء کی گئیں اور 894 خواتین نے خود کشی کیا۔ عورت فاونڈیشن کے مطابق پاکستان میں 2008 سے لیکر 2014 تک 3,000 سے زائد عورتیں غیرت کے نام پر ماری جاچکی ہیں جبکہ ایچ آر سی پی کے اعداد و شمار کے مطابق 2014 میں923عورتیں اور 82 کم سن لڑکیاں غیرت کے نام پر قتل ہوئی تھیں ۔ ان اعداد وشمار میں گلگت بلتستان میں پیش آنے والی 21 ہلاکتیں بھی شامل تھیں۔ ایک این جی او ایسڈسروائیورز فاونڈیشن کے مطابق 2007 سے لیکر2014 تک تیزاب گردی کے 1,090واقعات پیش آئے ۔ ایک غیر سرکاری فلاحی ادارے کے مطابق پاکستان میں ہر برس تقریبا 1,000 اقلیتی عورتوں کا زبردستی مذہب تبدیل کر کے مسلمانوں کے ساتھ ان کی شادی کی جاتی ہے۔ ان تما م جرائم کی شرح میں کمی آنے کے بجائے ان کی تعداد میں ہر سال اضافہ اور جرائم کے نت نئے بھیانک پہلو سامنے آرہے ہیں ۔ ملک کے دیگر حصوں کی طرح گلگت بلتستان میں بھی ان جرائم کی شرح میں اضافہ ہورہا ہے ۔ ان تمام محرومیوں کے باوجود ہم آج بھی خواتین کا عالمی دن نہایت دھوم دھام سے مناتے ہیں، انگریزی زبان میں لمبی لمبی تقاریر کرتے ہیں اور چند کامیاب خواتین کے تصاویر بینرز میں آویزان کرکے خوشیاں مناتے ہیں حالانکہ ان کی تعداد ایک فیصد بھی نہیں۔ وہ خواتین جو معاشرے میں تشدد کا شکار ہیں اور ابتری کی زندگی گزار رہی ہیں ان کے لئے حکومتی سطح پر کوئی خاطر خواہ اقدامات نظر آتی ہے اور نہ ہی ٖفلاحی اداروں کی طرف سے۔ فلاحی اداروں کو چاہئیں کہ وہ خواتین کے حقوق بابت پالیسیاں مرتب کرکے اسمبلی سے پاس کرانے کیلئے منظم جدوجہد کریں او ر سول سوسائٹی تنظیموں کی مدد سے متعلقہ اداروں پر دباو ڈالیں کہ وہ خواتین کے حقوق کے لئے قانون سازی کریں۔ یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ بحیثیت انسان ہم دوسرے انسانوں کی مدد کریں، ان کے حقوق کا خیال رکھیں اور سب سے بڑھ کر خواتین کو ان کے جائز حقوق فراہم کرنے کیلئے مل کربھرپور جدوجہد کریں ۔

Comments