کراچی: بی این ایس اؤ سندھ زون کی مرکزی کابینہ کی قیادت میں 28؍اپریل 1949ء بدنام زمانہ معاہدہ کراچی پریس کلب کے سامنے بھرپور انداز میں احتجاج کا مظاہرہ کیا گیا

آج بالاورستان نیشنل سٹوڈنٹس آرگنائزیشن  (بی این ایس اؤ) سندھ زون کی مرکزی کابینہ کی قیادت میں 28؍اپریل 1949ء بدنام زمانہ معاہدہ کراچی پریس کلب کے سامنے بھرپور انداز میں احتجاج کا مظاہرہ کیا گیا ، جس میں معاہدہ کراچی سمیت دیگر گلگت بلتستان کے حوالے سے معاہدات کی مذمت کرتے ہوئے مندرجہ ذیل ایشوز پر روشنی ڈالی گئی۔
پہلی سازش:
مدد کی درخواست کو الحاق کا نام دینا اور UNO میں اِس کو متنازعہ بنانا:۔
یکم نومبر 1947ء میں گلگت اسکاؤٹس نے ڈوگرہ حکومت کا نہ صرف تختہ اُلٹ دیا بلکہ اِن کو ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گلگت بلتستان سے بھگانے پر مجبور کر دیا ۔آزادی کے بعد 16 ؍نومبر1947ء کو حکومت پاکستان سے انتظام و انصرام چلانے کے لیے اپنی تحویل میں لینے کی درخواست کیا اُس وقت پاکستانی حکمرانوں ، سول و ملٹری بیوروکریسی نے ایک منظم سازش کے تحت گلگت بلتستان کی مدد کی درخواست کو الحاق کا جھوٹا نام دیا ،بعد میں گلگت بلتستان کو حکومت پاکستان نے کشمیر ایشو کے ساتھ جوڑ کر UNO میں فریق بنایا ، چونکہ ابھی تازہ تازہ برصغیر کی تقسیم مسلم و ہندؤ کی بنیاد پر ہوا تھا یہ پاکستانیوں کی منفی سوچ کی عکاسی ہے کہ آنے والے وقتوں میں کشمیر کا مسئلہ بھی مذہب کی بنیاد پر تقسیم ہوگا ،گلگت بلتستان کا خطہ میں 100% فیصد مسلم آبادی ہے لہٰذا یہ پاکستان کے حق میں ووٹ کریں گے کہہ کر آج تک ہمیں بنیادی حقوق سے محروم رکھا گیا ہے۔
دوسری سازش:
معاہدہ کراچی کے پس پردہ حقائق:۔
12؍اگست 1947ء کو یعنی برصغیر کی تقسیم سے 2دِن قبل نئی آنے والے مملکت کے سربراہان نے جمو وکشمیر کے نواب ہری سنگھ سے Stand Steel Agreement کو حتمی شکل دی، اُس کے بعد اکتوبر میں مذکورہ معاہدے کی دھجیاں اُڑا دی گئیں، تو ہری سنگھ راجہ جمو و کشمیر نے حکومت انڈیا سے الحاق کی درخواست کی ، انڈیا نے اپنے آئین کے آرٹیکل 370کے تحت عبوری طور پر جمووکشمیر کے تمام اِکائیاں جمو، وادی، لداخ، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے لیے لوک سبھا اور راجھیا سبھا میں نشستیں مختص کیں اُس کے بعد جواہر لعل نہرو نے UNOمیں مقدمہ دائر کیا کہ پاکستان 1935 ء ایکٹ کی خلاف ورزی کررہا ہے لہٰذا انہیں روکا جائے، UNOنے ریاست جمو وکشمیربشمول گلگت بلتستان کی بابت 3قراردادیں ، جن میں 13اگست 1948، 5؍جنوری 1949 اور 28؍اپریل 1949 ء پاس کردی گئیں ۔مذکورہ تینوں قراردادوں میں سراحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ حکومت انڈیا اور حکومت پاکستان اپنے اپنے سویلین اور فوج متنازعہ خطہ سے نکال دیں، اور ریاست جمو و کشمیر کا حتمی فیصلہ خطہ کے عوام کی مرضی و منشاء سے کیا جائے ، جس کے لئے ایک آزاد کمیشن تشکیل دیا جائے گا جس کی نگرانی میں خطہ کے عوام اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کریں گے۔ جس وقت UNOمیں 28؍اپریل 1949ء کی قرار داد پاس کی جاتی ہے اُسی دِن حکومت پاکستان نے دو زرخرید کشمیری جن میں چوہدری غلام عباس ، سردار ابراہیم اور ایک پاکستانی بے محکمہ وزیر مشتاق احمد گوربانی کی ملی بھگت سے معاہدے پر دستخط کروائے۔گلگت بلتستان کے عوام سے پوچھے بغیر اِن کی جعلی نمائندگی کرتے ہوئے دُنیا کو گمراہ کرنے کی کوشش کی گئی چونکہ سردار ابراہیم اور چوہدری غلام عباس نہ ہی گلگت بلتستان کے شہری ہیں اور نہ ہی ماضی میں اِن کی گلگت بلتستان میں عمل داری رہی ہے اور نہ ہی ہم نے اِن کو اپنا نمائندہ چنا تھا۔ اِس معاہدے کے بعد گلگت بلتستان کو غلامی کے دلدل میں دھکیل دیا گیا اور نہ صرف تمام تر انسانیت ، سماجی، اخلاقی ، سیاسی ، معاشی ، معاشرتی اور قانونی حقوق سے محروم کردیا گیا بلکہ اپنے بنیادی حقوق کے لیے آواز اُٹھانے والوں پر ATC کے جھوٹے مقدمات بنا کر جیلوں میں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کرنے پر مجبور کیے جارہے ہیں اور دیگر Activist کو حراساں کیے جارہے ہیں ۔
تیسری سازش:
1963 ء معاہدہ شمشاد:۔
گلگت بلتستان ریاست جمو وکشمیر کی اہم اکائی ہے ، بین الاقوامی قانون کے مطابق متنازعہ خطہ میں اُس وقت تک کوئی میگا پروجیکٹ نہیں لگایا جاسکتا جب تک اِس کا حتمی فیصلہ نہ ہو ۔البتہ دوران مقدمہ اُس کے مالکان سے ریفرنڈم کرواکر میگا پروجیکٹ لگایا جاسکتا ہے لیکن ستم ظرفی یہ ہے کہ چائنا خود UNOکا ایک اہم ممبر ہوتے ہوئے UNOکی قراردادوں کی پاسداری نہیں کرنا اقوام متحدہ کے منہ پر طمانچہ مارنے کے مترادف ہے اُس کی مثال معاہد شمشاد 1963ء ہے جو شاہراہ ریشم کی تعمیر کے عوض حکومت پاکستان نے اصل مالکان سے پوچھے بغیر 2500 اسکوائر میل کا علاقہ چائنا کی گود میں ڈالا ہے۔
چوتھی سازش:
دیامر بھاشا ڈیم:
ماضی کی طرح دیامر بھاشا ڈیم کی بابت گلگت بلتستان کی عوام سے رائے لیے بغیر معمولی رقم دیکر یا دباؤ میں لاکر سادہ لوح عوام کو وقتی طور پر خاموش کرایا ہے لیکن آنے والے وقت میں نئی نسلیں اپنے آباؤاجداد کی قبریں ، مسجدیں اور گھروں کے دَرو دیوار جو ڈیم کی زدمیں آکر مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹ جائیں گے، یہ ایک دل ہلا دینے والا لرزہ خیز عمل ہوگا جو کہ متاثرین کے لیے ناقابل تلافی نقصان ثابت ہوگا۔.پانچویں سازش:
سی پیک:
حکومت پاکستان اور حکومت چائنا کا گلگت بلتستان کے عوام سے کوئی غرض نہیں بلکہ اِن کی نظریں گلگت بلتستان کے وسائل کی بندربانٹ پر ہے ۔ایسا ہی رویہ ’’سی پیک ‘‘میں نمایاں نظرآتا ہے ۔قائمہ کمیٹی کے چیئرمین ، سینیٹر مشاہد حسین برائے ’’سی پیک‘‘ نے وضاحت کی ہے کہ گلگت بلتستان متنازعہ خطہ ہونے کی وجہ سے نہ ہی اِن کو 46 ارب ڈالر میں اِن کو حصہ دے سکتے ہیں اور نہ ہی آنے والے وقتوں میں گلگت بلتستان کے عوام اِس سے مستفید ہوسکتی ہے۔ ’’سی پیک‘‘ ایک پانچ روٹس پر مشتمل ایک بین الاقوامی شاہراہ ہوگا جن میں ریل ٹریک ، بڑی گاڑیاں ، کنٹینرز کے لئے سڑک، فائبر آپٹیکل جو کہ جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ ہوگا، بجلی ٹرانسمیشن اور گیس کیبل ۔اِس پروجیکٹ سے بقول قائمہ کمیٹی گلگت بلتستان عوام کو اس سے حصہ نہیں ملے گا بلکہ اعزازی طور پر انہیں شامل کیا جائے گا اِس کا مطلب یہ ہوا گلگت بلتستان کے عوام کو اعزازی قربانی کے بدلے میں (i)گلگت بلتستان کے عوام کی انگن سے لائنیں بچھائی جائیں گی جس سے گھروں کی چاردیواری کا تقدس مکمل طور پامال ہوگا ۔(ii)بھاری مشنری کے دھواں سے اُٹھنے والی زہریلی گیس سے گلگت بلتستان کے تازہ فروٹ بد ذائقہ ہوں گے ، فصلیں تباہ ہوں گی اور قدرتی تازہ ہوا زہری گیس میں بدل کر کئی اقسام کی بیماریوں کو جنم دیگی۔(iii)جس سے انسانی اموات کا دور دورہ شروع ہوجائے گا ۔(iv) صدیوں پرانے گلیئشیر پگھل جائیں گے جس سے زیر کاشت اراضیات بنجر میں تبدیل ہوجائے گی اور لوگ فاقہ کشی کا شکار ہوجائیں گے۔
چھٹی سازش:
زمینوں پر قبضہ:.
پاکستانی حکومت سول اور ملٹری بیوروکریسی گلگت بلتستان میں بسری چیک پوسٹ سے لیکر خنجراب بارڈر تک اور گلگت سے لیکر اسکردو کے بارڈر تک شاہراہ ریشم سے متصل ارضیات کو خالیصہ سرکار ڈیکلیئر کرکے انسانی جان لیوا مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہتے ہیں۔
لہٰذا BNSO اِس قرارداد کی وساطت سے عالمی دُنیا، بین الاقوامی حقوق انصاف کی تنظیمیں ، UNO ، انٹرنیشنل ایمنسٹی اور دیگر تنظیموں سے اپیل کرتی ہے کہ اِن تمام معاہدات کو جو گلگت بلتستان کی بابت ہو کالعدم قرار دیا جاکر حکومت پاکستان اور چائنا کوپابند کیا جائے کہ وہ آئندہ اِس قسم کے معاہدات کو تشکیل نہ دیں۔

Comments